More

    اندھی تلقید

    کچھ دن پہلےبازار میں ایک شخص کی درگت بنتی دیکھی ۔۔ بظاہر داڑھی مونچھ’ یہ اُونچا قد کاٹھ اور سات آٹھ بندوں کے ہتھے لگا ھو بچارا۔ کسی رحم دل نےدرواغہ شہر کو بلا بھیجا ۔۔ اور اُس کی کچھ جان بخشی ہوئی ۔۔ لوگوں سے سُنا تو پتہ چلا کے محترم پیری مریدی کے شعبہ سے وابستہ تھے یا ہیں ۔۔۔ 
    مجھے سمجھ نہ آئی کہ اس شعبہ سے وابستگی کی وجہ سے صاحب کی درگت بنی یہ اپنا کام صیح نہیں کر پائے ۔۔؟
    شاید آپ نے سُنا ہو کہ دریائے چناب کے کنارے ایک ایسے ہی پیر کی ڈھیری ہے سُنا ہے کے بے اولاد ایک بار ماتھا ٹیک دے تو مُراد پوری ہو جاتی ہے۔۔
    ماتھا کیسے ٹیکنا ہے یہ بتاتی ہوں ۔۔ آپ نے دریا کے پانی میں ڈوبکی لگانی ھے اور باہر نکلتے ہوئے اپنے کپڑے پانی میں ہی چھوڑ آنے ہیں ۔۔ اپ کے جسم پہ ایک دھاگہ تک نہ رہے تب آپ کا ماتھا ٹیکنا قبول ہو گا ۔۔ اب اولاد نہ ہونے کی وجہ عورت ہی ھے تو ڈوبکی بھی وہی لگائے گی ناں صاحب اصول تو یہ ہی ہے۔۔۔ اور اُس ڈھیری پہ پردہ کا انتظام نہیں ہے۔۔۔ شاید باباجی آزاد خیال کے ہیں ۔۔
    آپ کو پتہ ہے اکثر خواتین اپنا گھر بار پھونک ڈالتی ہیں اس پیر فقیر چکر میں ۔۔ ارے وہی جناب ” کبھی ڑر کے ساس نے تعویذ کیا ہے ‘ کہیں جیٹھانی نے جادو کرا دیا ہے ‘ تو کبھی میاں قابو میں کرنا ہے ”
    میری ماں جی مجھے اکثر ایک قصہ سُناتی ہیں ۔۔ آج آپ کو بھی بتاتی ہوں ۔۔
    شادی کر کے میری ماں جی جب ابو کےگاؤں آئی ‘ تواحساس ہوا کہ یہ گاؤں کافی چھوٹا سا ہے گنتی کے دس بارہ گھر ‘اب ماں جی کے پڑوس میں جو گھر تھا وہ ابو کے چچا کے بیٹوں کا تھا ۔۔ اُن کی بہو جن کا نام نظیر تھا پر سب جِیرا جِیرا کہتے تھے، اکثر میری ماں جی کی مدد کرتی گھر کے مختلف کاموں میں’ ایک دن اُس نے میری ماں جی کو بتایا کے اُس کی بڑی بیٹی پہ کسی نے جادو کروایا ہے ‘اُس کو اکثر دورے پڑتے ھیں ‘ ماں جی نےعلاج کے بارے میں پوچھا تو پتہ لگا کے پاس کے گاؤں میں کوئی بابا جی ہیں وہ علاج کررہے ھیں ۔۔اور جب بچی کی حالت دیکھی تو احساس ہوا کے اس ک جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں نیل نہ پڑا ہو۔۔
    بابا جی کو لگتا ہے کہ کسی نے سخت جادو کیا ہے اور بچی پہ کسی آسیب کا سایہ ہے۔۔ ماں جی نے جیرا کی منتیں کی کہ اسے شہر کے بڑے ہسپتال لکےجاؤ یہ بیمار ہے’ پر جیرا کا کہنا تھا کہ باباجی کو پتہ لگا تو وہ بُرا مان جائیں گے میں انکو ناراض کیسے کروں۔۔
    آخر تھک کر ماں جی ‘نےبابا جی سے ملنے کا فیصلہ کیا۔۔ اگلی صبح گھر کے کام ختم کر کے ماں جی ‘ ماسی جیرا کے ساتھ والے گاؤں پہنچ گئی۔ آستانہ میں قدم رکھنے سے پہلے ماں جی نے ماسی جیرا کے سامنے اپنے کان کی بالی اُتار کر ھاتھ میں پکڑ لی اور اُس کو چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔۔ بابا جی کے سامنے بیٹھ کر ماں جی نے بتایا کے شادی کر کے اس گاؤں آئی ہوں اور آنے کے کچھ ہی دن بعد بالی چوری ہو گئی ہے۔۔ بابا جی نے تسلی دی کہ میں ابھی اپنے موکل سے پتہ کرواتا ہوں۔۔ باباجی نے زمین پہ چند لکیریں کھینچی ‘ انگلیوں پہ کچھ گنا’ ہوا میں ہاتھ ہلا کے کچھ پکڑا جو انکو ہی نظر آرہا تھا’ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے بھی رہے۔۔ اور ایک دم سراُٹھا کر بولے ” بی بی تیرے گھر بیٹھک کی چھتی پہ جو برتن ھیں اُن میں چھپایا تھا تیری نند نے پر اب وہاں سے اُٹھا لیا ہے ‘ جا بی بی گھر میں ہی تلاش کر میرا وقت نہ ضائع کر ۔۔
    ماں جی نے با با جی کو چند سکے دیے اور ماسی جیرا کا ہاتھ پکڑ کے باہر لے آئیں ۔۔ ہاتھ میں پکڑی بالی دیکھائی ‘ اور ماسی جیرا جانتی تھی کہ میرے ابو اکلوتی اولاد ہیں نند کہاں سے آگئی ۔۔ اور یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ کہ گاؤں کے ہر گھر میں بیٹھک ہوتی ہے اور وہاں برتن بھی جھتی پہ سجائے جاتے ہیں۔۔
    اُس وقت ماں جی نے ایک بار پھر ماسی کو کہا ” جیرا تیری بیٹی مر جائے گئی اسے لے چل ہسپتال۔۔” ماسی نے ماں جی کو گلے لگایا اور کہا ” بس میری بہن ایک تعویذ واپس دے دوں ‘ تو ٹانگے میں بیٹھ کے میرا انتظار کر ”
    ماں جی چپ چاپ آکر ٹانگے میں بیٹھ گئی وہ سمجھ گئی تھی شاید” کہ اب وہ اُس بچی کو اس باباجی کے جعلی تعویذ اور مار سے نہ بچا سکیں گئی “۔ ابھی اسی سوچ میں تھی کہ ماسی جیرا آتی نظر آئی ‘ کافی غصہ میں ‘ سانس پھولی ہوئی اور پسینہ میں شارابور ۔۔ پر چہرے پہ اطمینان ۔۔ بیٹھتے ساتھ گرج کے بولی۔۔ ” سالم ٹانگہ ہے گامو میرے گھر کے سامنے روکیں ورنہ تیری خیر نہیں ”
    سارا راستہ خاموشی میں کٹ گیا ۔۔ جب اپنے گھر کے سامنے اترنے لگی تو ماسی جیرا نے ماں جی کی طرف دیکھا اور شرم سے سر جھکا کر بولی ” بہن میری بیٹی کو ہسپتال لےجا وہ مر رہی ہے”
    ماں جی بتاتی ہیں کہ اُسی ٹانگے میں ہسپتال گئے اور ایک دو ہفتہ میں وہ چنگی بھلی ہو گئی تھی!! اور ساتھ والے گاؤں سے خبر بھی ملی کہ کسی مریدنی نے باباجی کی ٹانگ دوڑ دی اور سر پہ بھی چار ٹانکے آے ہیں اور اب وہ گوشہ نشینی کی ذندگی گزار رہے ھیں ۔۔۔

    ماں جی اب بھی کہتی ہیں کہ بابا جی کا ‘ یا دریائے چناب والی ڈھیری کے پیر کا کیا قصور ۔۔  وہ کہتے ھیں نہ ” کنواں پیاسہ کے پاس نہیں آتا ”
    اپ ایک بار دل پہ ہاتھ رکھ کے بتاؤ کیا کوئی پیر ‘ بابا ‘ کوئی حضرت اپ کے پاس خود چل کے آئے؟ نہیں نہ
    تو ۔۔ایمان کی کمی آپ میں ہے ‘ اللہ سے یقین آپ کا اُٹھ گیا ہے ۔غلطی پہ آپ ہوئے ناں ؟۔۔ اور آپ انکی درگت بناتے ہیں۔۔
    ایک تھپڑ خود کو ماریں صاحب کہ آنکھیں کھولیں’ ایک بار خود کی درگت بنائیں  کہ عقل کے چودہ طبق روشن ہوں ” کچھ یاد آئے کہ ھمارا دین کیا کہتا ھے ” اولاد اُس نے دینی ہے ‘ غیب کا علم اُس کو ہے ”
      غلطی پہ آپ ہیں ۔۔  اندھی تقلید آپ کر رہے ہیں ۔۔ اپنی بہو بیٹی کی عزت اپ نیلام کر رہے ہیں اور پٹ یہ رہے ہیں ۔۔ کچھ تو انصاف کی بات کرو صاحب !!
    اللہ کو کیا منہ دیکھنا ہےُ؟؟

    Latest articles

    Related articles

    Leave a reply

    Please enter your comment!
    Please enter your name here