More

    Ayesha ! The flower Selling Girl

    ………عائشہ سے عائشہ تک……….
    جون کی اس گرم رات میں ا اپنی میز پر گرم چائے کی چسکیاں لیتے سوچ رہا تها کچھ لکهوں…کچھ ایسا لکهوں جو کسی کی آنکھ تو نم کرے… کہ اس قوم کے ایلیٹ دانشوروں کا خاصہ یہی ہے…لیکن میں نہ ایلیٹ ہوں اور نہ دانشور…میں اور عائشہ اور ہم جیسے لاکهوں تو انسانیت کا وه کالک ہیں جنہیں ان کے ماں باپ نے طبعی مجبوری کے عوض غلطی سے زمین پر پهینک دیا…… عائشہ کی تصویر سامنے دهری ہے…رائٹنگ پیڈ پر قلم کی نوک رکهی تو یوں لگا جیسے قلم خون تهوک رہا ہو….جیسے اس کی نوک سے آنسو ٹپک رہے ہوں….شدید غم کی کیفیت میں جب آنسو خشک ہو جائیں تو گلے میں ایک عجیب سی پهانس ره جاتی ہے..نہ اگلنی والی اور نہ نگلنے والی…. نہ نوحہ لکهنے کی ہمت ہے، نہ مرثیہ لکهنے کی………کچھ رنج و الم ہیں اور صبر کی گریزپائیاں…..گهٹن اس قدر کی حلق اور دل کے بیچ انگارے دہک رہے ہیں….جانے یہ سینے کی جلن کب جان چهوڑے گی…..

    کہنے کو یہ ایک عام بات ہے….روز کی وہی غربت کی نہ ختم ہونے والی داستان……وہی جگی میں اگنے والی کسی بچی کی ایک عام سی کہانی……صحرا میں بهٹکتے بگولوں جیسا ایک اور بگولہ…..جی یہ عائشہ ہے….پاکستان کی راج دہانی میں جناح ایوینو پر چنبیلی کے پهولوں کے گجرے بیچتی ہے……دس روپے کا ایک گجرا……..صاحب لے لو……صاحب ایک لے لو….دس روپے کا ہے….صاحب لے ناں……صاحب گهر روٹی لے کر جانی ہے…صاحب ایک لے لو…

    ارے جاو معاف کرو…تنگ نہیں کرو…..یار ایک تو ان لوگوں سے بنده تنگ آ جاتا ہے…..بس اتنی ہی کہانی ہے..

    لیکن رکیے…ٹہریے….کچھ سنتے جائیے……

    ٹهیک یہی لمحہ ہو گا جب کسی بلاول ہاوس میں کوئی بختاور ہینکل ہارس کو ڈنر ٹیبل پر بیٹھ کر ڈیوڈ جانز کی ڈنر پلیٹ میں چائینیز کهانے سے لطف اندوز ہو رہی ہو گی……کیوں؟؟؟؟؟ کیونکہ ہنیکل ہارس اور ڈیوڈ جانز تک پہنچنے کے لیے لاکهوں عائشاوں کے خون پسینے کی کمائی درکار ہے………

    ٹهیک یہی لحمہ ہو گا…جب کسی رائے ونڈ محل میں سرکاری ہیلی کاپٹر میں دن بهر پهرنے کے بعد تهکا ہارا ڈیفیکٹو وزیراعلی شہزاده حمزه شہباز فرنچ ہیریٹیج کے ڈنر ٹیبل پر بیٹھ کر سوفی کانرن کی پلیٹ میں کانٹینینٹل کهانا تناول فرما رہا ہو گا……..کیوں؟؟؟؟ کیونکہ فرنچ ہیریٹیج اور سوفی کانرن تک پہنچنے کے لیے عوام کا جاہل رہنا ضروری ہے…….

    ٹهیک یہی لمحہ ہو گا جب طالبعلموں کے نام پر جمع کیے گئے چندے کے لینڈ کروزر سے اتر کر کوئی جبہ و دستار پوش بڑی توند لیے کسی سفارت خانے میں چندے کے ساتھ ساتھ کهانا بٹور رہا ہوگا…برما اور سعودی عرب کے لیے نئے جہادی خام مال کی سپلائی کے وعدے کر رہا هو گا…..کیوں؟؟ کیونکہ مسلمانوں کو جنت کے لیے تو جہاد لڑنی ہی ہے…….

    اسی لمحے کے آس پاس کوئی کپتان ایڈیڈاز کے فلیٹ پہن کر سٹار ٹریک کے ٹریڈ مل پر رات کا کهانا ہضم کر رہا ہو گا…….
    اسی لمحے کے آس پاس سیاست کا کوئی بهانڈ منہ میں کوہیبا رڈ ڈاٹ کا سگار دبائے کسی ٹیلی افلاطون کے ساتھ ٹاک شاپ میں قوم کے غم میں گالم گلوچ میں مصروف ہو گا………

    اسی لمحے سات سالہ نامراد عائشہ دشت وحشت کی سڑکوں پر اپنے دودھ پیتے بهائی کے لیے اور اپنی بیوه ماں کے لیے چند روٹیوں کی خاطر گجرے بیچ رہی ہے……اس کا باپ نشہ کر کے گهر پر نہیں پڑا..نہ ہی روزی کمانے لیے کراچی کی سڑکوں کی خاک چهان رہا ہے…..اس کا باپ تو اسٹرٹیجک جہاد کی نظر ہوا تها…..

    جہاں عائشہ گجرے بیچ رہی تهی…اس سے ٹهیک بیس قدم کے فاصلے پر پاکستان کی اعلی ترین میٹرو زمین سے ابهر رہی تهی…جس کے ہر مسافر کو ٹکٹ پر چالیس روپے کی سبسڈی ملتی ہے…دن کے ایک لاکھ مسافر ٹرازٹ کرنے والی میٹرو…دن کے چالیس لاکھ کهانے والی میٹرو…….اور عائشہ کے دن کی کل کمائی چالیس روپے ہے……

    میں نے تهوڑی دیر گاڑی سائیڈ پر لگائی….عائشہ کے ساته سگنل پر گجرے بیچے….کچھ لوگ مسکرائے…کچھ ہنسے…..لیکن گجرے بک گئے……عائشہ چل دی..میں بهی چل پڑا…ایک ہلکی سی طمانیت دل میں ابهری کہ چلو کچھ تو کیا………

    لیکن ابهی چند میٹر ہی چلا تها کہ سڑک کنارے ایک اور عائشہ کهڑی تهی…..وه گجرے نہیں بیچ رہی… اپنا جسم بیچ رہی تهی….

    میں رکا…وه قریب آئی….کہنے لگی…صاحب…نیکی اور گناه ساتھ ساتھ …….ابهی عائشہ کے ساتھ گجرے بیچ رہے تهے اور ابهی یہاں؟؟ میں نے کہا نہیں…سوچ رہا هوں عائشہ ساتھ تو گجرے بیچے…تمہارے ساتھ کیا بیچوں؟؟؟………

    وه ہنسی یا شاید روئی….کہنے لگی صاحب….میرا نام بهی عائشہ ہے….اس عائشہ میں اور اس عائشہ میں دس سال اور دس قدم کا فاصلہ ہے…..دعا کرنا خدا نہ کرے و عائشہ کبهی اس عائشہ کی جگہ کهڑی ہو…..

    پیچهے سے کسی گاڑی والے نے زور کا ہارن بجایا…….عائشہ نے کہا صاحب جائیے…..آپ پچهلے صاحب کے نشے میں بهنگ ڈال رہے ہیں……..

    Latest articles

    Previous articleطوائف کی عزت
    Next articleHunger (Bhook)

    Related articles

    Leave a reply

    Please enter your comment!
    Please enter your name here