More

    ایک قوم کا اخلاقی زوال

    کافی عرصے سے پڑهائی اور نوکری کے سلسلے سے بیرون ملک ہی مقیم تھی ..پر پاکستان میں بچپن کی یادیں تھیں ،،اسکول اور کالج کی سہلیاں ..بہت یاد آتی تھیں اور ایک خلش سی تھی دل میں کے اتنے عرصے میں گی کیوں نہیں .. خیر قصہ مختصر ایک عزیز کی شادی کے لیے میں بھی پاکستان آ ہی گیی … کراچی ائیرپورٹ پہ پی آئی اے نے بڑی مشکل سے لینڈ کیا ..جس کی مجھے امید نہ رہی تھی اسلیے میں نے چار قل چار چار بار پڑھ ڈالے اور دوران سفر اپنے ہر دانستہ اور غیر دانستہ گناہ کی معافی مانگ لی..یہ سوچ سوچ کے دماغ کی نسیں پٹھنے کو تھیں کہ ایسا کون سا گناہ کر ڈالا ہے جس کی پاداش میں یہ سفر کیا اور ساتھ میں انگریزی والا سفر بھی … جب ائیرپورٹ سے باہر قدم رکھا تو اس حقیقت سے پردہ اٹھا کے ” چونکہ خلاف توقع پی آئی اے وقت پہ آیا ہے تو میرا گھر والے ابھی گھر میں ہی چاۓ بسکٹ کے ساتھ دو دو ہاتھ کر رہے ہیں.. الله سبحان تعالیٰ کا شکر ہے کہ کچھ ہمت ابھی باقی تھی ..جب کہ پی آئی اے والوں نے کوشسش پوری کی تھی کہ کچھ باقی نہ رہے … خیر اپنا سامان سمنبھلا اور گھر والوں کی ہدایت کے مطابق اک کونے میں بیٹھ گی..میری حالت اس وقت اس بندریا جیسی تھی جیسے پنجرے سے نکال کر شہرمیں چھوڑدیا جاے اور وہ ہوانکوؤں کی طرح آنکھیں پھاڑے سب کو ٹکر ٹکر دیکھے … ابھی چند لمحے ہی گزرے تھے کے ٹیکسی ڈرائیور حضرات اپنی خدمات لےکر کے حاضر ہو گے…میں نے کسی کو بھی جواب دینا مناسب نہ سمجھا اس کی وجہہ یہ کے وہ سنانے کو تیار ہی نہ تھے … خود سے اندازے لگنے لگے … گھر والے نہیں اۓ .. بی بی کسی کا نام بتاؤ ،،نمبر بتاؤ ہم فون کر کے بولا دیتے ہیں… میاں چھوڑ گیا ہے… پیسے نہیں ہیں ..پتا کھو گیا ہے…. ابھی قیاس اریاں جاری تھی کے پاس میں ایک نیک انسان نے ان سب کو ٹھنڈ کیا اور وہاں سے چلتا کیا….. ان کے جانے کی دیر تھی کے کسی نے کندھے پہ ہاتھ رکھا … اور میرا نام لے کے وہ مجھ سے لیپٹ گی ..ابھی اسی سوچ میں گم تھی کہ یہ محترمہ ہیں کون کہ وہ خود ہی بول اٹھی ”ارے یار میں سدرہ ..ہم کالج میں ساتھ تھیں ” بس اس وقت دل باغ باغ ہو گیا … رسمی گفتگو ہوئی اور پتا چلا کے وہ شادی کے دبئی اور کراچی کی ہی ہو کر کے رہ گی ہے.. ابھی بھی دبئی سے آیی ہے کچھ دنوں کے لیا ..اپنا فون نمبر دیا میرا لیا اور چلی گیی… میں سکتے کے عالم میں تھی شاید جب بھائی نے آواز دی اور ہم گھر کو نکلے …
    مجھے آج بھی یاد ہے ..ایک متوسط طبقہ کے خاندان سے تعلق رکھنے والی ..شرماتی گھبراتی سی ،معصوم سی، ایک بڑی سی چادر میں چھپتی چھپاتی سی ..کبھی کسی نے اسکی آواز نہیں سنی ہو گی ..اور آج ..ایسا لباس زیب تن تھا کے دیکھ کہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ وہ ہی ہے …سدرہ بلکل بدل چکی تھی — وہ اپنے لباس میں کسی فیشن ایبل ماڈل سے کم نہیں لگ رہی تھی…. تین چار دن بعد گھر کے نمبر پہ کال آیی …ا سدرہ .ایک پارٹی کر رہی تھی اس کا دعوت نامہ دیا ..میں سوچ میں پڑ گی کے جاؤں یہ نہیں .پر جب یہ پتا چلا کے ایک دو اور سہلییاں بھی آرہی ہیں تو جانے کا ارادہ کر لیا ..
    چچی کی آواز آیی کہ ” آ کر کے دیکھو تم سے کون ملنے آیا ہے ”!! باہر برآمدے میں گی تو دیکھا ہماری پرانی کام والی ماسی رشیدہ بیٹھی تھی ..جتنی خوشی مجھے اسے دیکھ کے ہوئی شاید اتنی اسے بھی…یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ماسی نے ہمیں ماں جیسا پیار کیا ..اور ہم بھی اس کی عزت ماں کی طرح ہی کرتے تھے اور اب بھی ..وہ اپنے پوتے کے ساتھ خاص طور پہ ملنے کے لیا آیی تھی..

    مقررہ وقت اور دن پر میں پارٹی ہال کے سامنے تھی..یہ کراچی کا پورش علاقہ تھا .. ایک بڑے سے ہوٹل میں منعقد کی گی تھی تقریب … ہال میں داخل ہوتے ہی مجھے احساس ہو گیا کے یہ وہ تقریب نہیں جہاں مجھے آنا چاہیے تھا ..اب آ چکی تھی اس لیے سوچا باقی سہلیوں سے مل کے جایا جائے .. اس تقریب میں سب تھے … ہمارے معاشرے کے شرفا ..ماڈلز.. سیاستدان .. بیوروکرٹ ….شراب و شباب سے بھر پور محفل… ہمسایے ملک کے بے ہودہ گانو پہ تھرکتے جسم ،، ،،لڑکھتے قدم ..ادھر سے ادھر جام چھلکتے ..اور کھوکھلے قہقہے … کچھ ہی لمحوں میں میرا دم گھٹنے لگا اور میں نے باہر لان کا رخ کیا ، شام کافی ہو رہی تھی میں نے جانا چاہا تو سدرہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا ” ڈونٹ بی یار ” ابھی تو محفل جمی ہے ابھی تو اس کا حسن تو تم نے دیکھا نہیں .. میں سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی… اتنے میں کچھ سر مست ہاتھی جیسے چھومتے حضرات ،،اور چند ہرنی کی چل چلتی خواتین سدرہ کے پاس ایں اور کچھ لمحوں میں قہقہے بلند ہوے ..سدرہ نے بیرا کو آواز دی اور ایک بؤول منگوایا …پھر سب مردہ مرد حضرات نے اپنی کار کیز اس میں ڈال دیں … خواتین نے ہاتھ بڑھا کے ایک ایک چابی لی اور باہر کار میں بیٹھتی گیں..کس کی کار میں کون بیٹھ رہی تھی کوئی نہیں جانتا تھا ..میں ابھی بھی نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ یہ سب کس لیے …جو جس کے ساتھ محفل میں آیئ تھی وہ واپس کسی اور کے ساتھ جا رہی تھی.. …..کوئی کسی کے ساتھ گی اور کوئی کہیں..اس سے پہلے کے میں اپنے گھر جانے کی اجازت سدرہ سے لیتی وہ کسی غیر مرد کی بانہوں میں چھولتی جا رہی تھی ..میں نے آواز دی تو بولی ” فائنڈ یور پارٹنر ڈیر ” بائے !! میں خاموش تھی…ایک محترم پاس اے اور بنا کسی شرم و لحاظ کے بولے ..”( we dont have issue in three som ) …اسوقت میرا دل چاہا کے زمین پٹھ جاۓ اور میں اس میں دفن ہو جاؤں . ….اس شخص کو انکار کیا اور اب وہاں روکنے کا جواز نہیں رہا ….
    میں نے اپنے آپ پہ خفا تھی کے میں آیی ہی کیوں مرے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے.. اندر ہال میں اکر کے اپنا بیگ لیا واپس جانے کو مڑی.. ہال کے ایک کونے میں چند حضرت صوفے پہ برجمان تھے اور ان کے سامنے10,12 سال کے بچے کھڑے تھے .. بچوں کو نہلا دھلا کے صاف کپڑدے پہنے گے تھے ..پر ان بچوں کے چہروں پہ مایوسی اور بےبسی صاف نظر آرہی تھی .. ایک بچے کو دیکھ کر کہ پل بھر کو روکی کہ اس کو کہاں دیکھا ہے ..اس بچے کی نظروں میں التجا تھی ..پر میں اس وقت اپنے آپ پہ خفا تھی میں ایک پل بھی اور روکنا مناسب نہیں سمجھا …
    رات بھر نیند نہ آیی یہ ہی سوچتی رہی کے وہ بچہ کون تھا ..سوچنے سمجھنے کی طاقت جیسے ختم ہو گیی تھی ..صبح کسی کے رونے کی آواز سے آنکھ کھلی ..باہر آیی تو دیکھا ماسی رشیدہ بیٹھی زار و قطار رو رہی تھی .. میں جا کے ماسی کے پاس بیٹھی اور رونے کا سبب جاننا چاہا تو وہ ہچکییں لیتے ہووے بولی ..
    ” میرا پوتا مر جاۓ گا …اس کے باپ نے نشہ سے مجبور ہو کے ظلم کر ڈالا ..چند ریپوں کی خاطر بیچ ڈالا …بہت خون بہا ہے .. سرکاری ہسپتال والا ،ڈاکٹر کہتا ہے کے بڑے ہسپتال لے جاؤ ..باجی کچھ کرو ” وہ روتے جا رہی تھی اور میرا سانس رک رہا تھا ..مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کے کیا کہوں … تو وہ ماسی کا پوتا تھا .. وہ پہچان گیا تھا …میں نظر انداز کر آیی…..
    میں واپس آچکی ہوں پر اب بھی اس واقع کو سوچ کر میری روح کانپ جاتی ہے….. کہ ہم ماڈرن ہو گے ہیں ترقی کر لی ہے یہ پھر بےحس اور لا پروہ .. حلال حرام ….کچھ بھی تو نہیں اب ….

    Latest articles

    Related articles

    Leave a reply

    Please enter your comment!
    Please enter your name here